Care of Forest

کوہ سلیمان کے حوالے سے میرا آج کا کالم (قیسا جل رہا ہے ) پشتونوں کے جدامجد قیس عبدالرشید کے نام سے موسوم (قیسا غر) کوہ سلیمان انتہائی تاریخی و جغرافیائی اہمیت کا حامل اٹھ سو کلومیٹر طویل پہاڑی سلسلے کوہ ہندوکش کا حصہ ہے ۔ یہ پہاڑی سلسلہ اپنے مرکز افغانستان سے تاجکستان ، چین اور پاکستان میں صوبہ پنجاب تک پھیلا ہوا ہے ۔ افغانستان میں پامیر جبکہ پاکستان میں بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے سنگم پر اس پہاڑی سلسلے کی مشہور چوٹی (قیسا غر) کوہ سلیمان سطح سمندر سے 3484 میٹر یعنی 11000 فٹ بلندی پر واقع ہے ۔ پہاڑ کے بالائی حصے میں حضرت قیس عبدالرشید بابا کا مرقد ہے ۔ جبکہ چوٹی کے احاطے میں چٹان کے اندر پانچ بائی آٹھ فٹ کا ایک چپٹا کونہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے تخت نشینی سے منسوب ہے ۔ جہاں پر زائرین اتر کر نوافل ادا کرتے ہیں ۔ اسی تقدس کی بناء پر اس پہاڑ کو کوہ سلیمان بھی کہا جاتا ہے ۔ کوہ سلیمان میں دنیا کا سب سے بڑا چلغوزے کا جنگل ہے ۔ اس کے علاؤہ زیتون ، دیوددار ، پلوس ، صنوبر اور دیگر اقسام کے گھنے جنگل بھی موجود ہیں ۔ ہزاروں ایکڑ پر محیط قیسا غر مار خور پہاڑی بکرے ، چیتے اور دیگر نایاب نسل کے جنگلی حیات کا بھی مسکن ہے ۔کوہ سلیمان کے دامن میں کئی گاؤں آباد ہیں ۔ جنکی معیشت کا دارومدار زراعت اور کوہ سلیمان میں موجود جنگلات پر منحصر ہے ۔ سیزن میں سالانہ یہاں سے ہزاروں ٹن چلغوزے کی پیداوار ہوتی ہے ۔ گاؤں والے مقامی سطح پر ان جنگلات کی ہر ممکن حد تک حفاظت کرتے ہیں ۔ اور درخت کی کٹائی پر مختلف قسم کے جرمانہ لگانے ہوئے ہیں ۔ جن میں قابل ذکر چلغوزے اور زیتون پر پانچ لاکھ روپے فی درخت جرمانہ عائد ہے ۔ ڈیڑھ ہفتہ پہلے نامعلوم وجوہات کی بناء پر اس پہاڑ میں اچانک آگ بھڑک اٹھی ہے ۔ تُند ہواؤں ، سوکھے پتوں اور خس وخاشاک کی وجہ سے آگ تیزی سے گیارہ کلومیٹر طویل رقبے تک پھیل گئی ۔ آک کی لپیٹ میں آ کر بڑے پیمانے پر چلغوزے اور زیتون وغیرہ کی قیمتی درختیں جل کر خاکستر ہو گئے ۔ علاؤہ ازیں آگ بجھانے کے دوران امدادی کارروائیوں میں اب تک تین مقامی افراد جھلس کر جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ دو افراد شدید زخمی ہوئے ہیں ۔ حسب روایت انتظامیہ کو دس دن بعد ہوش آیا تو محکمہ زراعت اور وائلڈ لائف کے مطالبے پر پاک آرمی کی جانب سے ایک عدد فائر فائٹر ہیلی کاپٹر پہنچ گیا ۔ مذکورہ ہیلی کاپٹر دو سو کلومیٹر دور سبکزئی ڈیم سے دو چکر لگا کر بے بس ہوگیا ۔ اب ایران سے فائر فائٹر طیارے مانگنے کی باز گشت سنائی دے رہی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا کہ ہمارا ملک فوری طور پر کسی قدرتی آفت سے نمٹنے کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے ۔ عموماً دو ملکوں کی لڑائی میں پہلے مرحلے میں آئل ڈپو ، بجلی گرڈ سٹیشن ، ڈیم ، ہسپتال اور ائیر پورٹ کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ خدانخواستہ ہمارے ملک پر ممکنہ طور پر اچانک حملے کی صورت میں ہم کتنی حد تک اپنی دفاع میں کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ جو ملک گیارہ دنوں سے لگی آگ پر قابو نہیں پاسکتا وہ ملک اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے کیا اقدامات اٹھا۔

تبصرے